چراغ بجھ گیا تھا

چراغ بجھ گیا تھا
Chirag-Bujh-Gaya
چراغ بجھ گیا تھا


وہ ساون کی پہلی پہلی بارِشوں میں

جب سبھی ایک دُوسرے کا

ہاتھ تھامے ہنْستے جاتے

گرجتے بادل کڑکتی بجلی سے

سہم سہم کرگلے مِلتے جاتے

اِنھی ساعتوں میں

زرد پتّوں کے بکھرے ڈھیروں تَلے

بھیگتی مٹّی کی سُوندی خوشبُوؤں سے

چھت پر ٹپکنے والی بُوندوں  سے
Chirag-Bujh-Gaya-2
چراغ بجھ گیا تھا


سہم کر چھپ کر

جب میں گامزن تھا

عِلْم کی رَہگذر پہ

میں اُٹھّا کھڑکی کے کواڑ بند کرنے

کہ تیز جھونْکے میرے لمحہ لمحہ

مرتے چراغ کو کہیں گُل نہ کر دے

میری روشنی کو جُدا نہ کر دے

قریب منزِل نہ دُور کر دے

مگر یہ شایدتھی خوش گُمانی

کہ میری منزِل تو مجھ سے

کوسوں مزید اوجھل سی ہو گئی تھی

میری دو آنکھیں خمارِاُلفت سے جیسے

مزید بوجھل سی ہو گئی تھیں

سفید آنچل کا جادُو دِل پر

خموشیوں سے اُتر رہا تھا

کِواڑبجنے لگے تھے

اور اِک

ہوا کا جھونْکا جو تیز آیا

عقب میں ڈالی نظر جو میں نے

چراغ با لکل ہی بجھ گیا تھا

اے.آر.نقش

Comments

Popular posts from this blog

HTK...more to explore

ریاست انگلستان بمقابلہ ریاست پاکستان