حقوق نسواں بمقابلہ گھریلو تشدد
مغرب میں ہر شخص(بلا جنسی تخصیص)خود کو انسان سمجھ کر اپنے حقوق کے حصول اور فرائض کی ادائیگی کے سلسلے میں حساس ہوتا ہے.
مشرق میں خصوصاً ہمارے معاشرے میں ایسا شاذ و نادر دیکھنے کو ملتا ہے.
صالحہ بیگم کے خیر سے دو صاحبزادے ہیں
شکور اور ظہور
شکور میاں تو ابا حضور کی رحلت کے بعد چاول کے خاندانی بیوپار میں لگ گئے، ظہور میاں البتہ
تهوڑے شوخ واقع ہوئے تھے،مرمرا کر بی اے پاس کیا تو نجانے کہاں سے سر پر لندن جانے کا بھوت سوار ہوا،وہ رولا ڈالا کہ صالحہ بیگم کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور ظہور میاں یہ جا وہ جا!
منزه شکور کی گهروالی اور گھر کی بڑی بہو ہونے کے باوجود صالحہ بیگم کے عتاب کا شکار رہتی، مشرقی جو ٹھہری،ابا نے بیاہتے وقت قسم اٹھوائی تھی کہ سسرال میں تو زندہ جارہی ہے نکلنا مر کر ہی،اب منزه خود کو انسان کی بجائے عورت سمجھتی اور وہ بھی بے زبان تو سسرال میں اس کی جگہ بنتی، بصورتِ دیگر نتائج کی ذمہ دار منزه خود ہوتی.
دوسری طرف ظہور میاں لندن میں انجیلا کی زلف کے اسیر ہو کر صالحہ بیگم کو بتائے بغیر شادی رچا بیٹهے.
انجیلا لندن کے "انسانی معاشرے"کی پیداوار جہاں عورت خود کو اتنا انسان سمجھتی کہ انسان کے دوسرے روپ مرد بننے کی خواہشمند زیاده نظر آتی ہے.
عرصے بعد ظہور میاں انجیلا سمیت صالحہ بیگم سے ملنے آتا ہے.
صالحہ بیگم تو پهولے نہیں سماتی،ہر آتے جاتے کو انجیلا بے بی کی سرگرمیوں کے بارے بتاتی جاتی.
بس بوا!کیا بتاؤں میں تو ظہور میاں سے کبھی نہ بولتی اور شکور میاں اسے میرا مرا منہ بھی نہ دیکهنےدیتے پر جو چاند سی بہو ڈھونڈ کے لایا ہے وہ کلموہا میرے لئے اس خاطر اس کے سارے گناہ معاف!
عورت کا ایک طرف خود کو سرے سے انسان ہی نہ سمجھنا اور دوسری جانب مرد کے لباس میں گھسنے کی کوشش کرنا دو انتہائی رویے ہیں جس کی ایک صورت منزه تو دوسری شکل انجیلا ہے،صلے میں منزه کو معاشرے کا سلوک صالحہ بیگم کی سخت گیری اور شکور میاں کی بے حسی کی شکل میں تو انجیلا کو ظہور میاں کی گهگیاہٹ، منمناہٹ اور صالحہ بیگم کی"میں واری میں قربان" کے روپ میں ملنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں.
اے.آر. نقش
مشرق میں خصوصاً ہمارے معاشرے میں ایسا شاذ و نادر دیکھنے کو ملتا ہے.
صالحہ بیگم کے خیر سے دو صاحبزادے ہیں
شکور اور ظہور
شکور میاں تو ابا حضور کی رحلت کے بعد چاول کے خاندانی بیوپار میں لگ گئے، ظہور میاں البتہ
تهوڑے شوخ واقع ہوئے تھے،مرمرا کر بی اے پاس کیا تو نجانے کہاں سے سر پر لندن جانے کا بھوت سوار ہوا،وہ رولا ڈالا کہ صالحہ بیگم کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور ظہور میاں یہ جا وہ جا!
منزه شکور کی گهروالی اور گھر کی بڑی بہو ہونے کے باوجود صالحہ بیگم کے عتاب کا شکار رہتی، مشرقی جو ٹھہری،ابا نے بیاہتے وقت قسم اٹھوائی تھی کہ سسرال میں تو زندہ جارہی ہے نکلنا مر کر ہی،اب منزه خود کو انسان کی بجائے عورت سمجھتی اور وہ بھی بے زبان تو سسرال میں اس کی جگہ بنتی، بصورتِ دیگر نتائج کی ذمہ دار منزه خود ہوتی.
دوسری طرف ظہور میاں لندن میں انجیلا کی زلف کے اسیر ہو کر صالحہ بیگم کو بتائے بغیر شادی رچا بیٹهے.
انجیلا لندن کے "انسانی معاشرے"کی پیداوار جہاں عورت خود کو اتنا انسان سمجھتی کہ انسان کے دوسرے روپ مرد بننے کی خواہشمند زیاده نظر آتی ہے.
عرصے بعد ظہور میاں انجیلا سمیت صالحہ بیگم سے ملنے آتا ہے.
صالحہ بیگم تو پهولے نہیں سماتی،ہر آتے جاتے کو انجیلا بے بی کی سرگرمیوں کے بارے بتاتی جاتی.
بس بوا!کیا بتاؤں میں تو ظہور میاں سے کبھی نہ بولتی اور شکور میاں اسے میرا مرا منہ بھی نہ دیکهنےدیتے پر جو چاند سی بہو ڈھونڈ کے لایا ہے وہ کلموہا میرے لئے اس خاطر اس کے سارے گناہ معاف!
عورت کا ایک طرف خود کو سرے سے انسان ہی نہ سمجھنا اور دوسری جانب مرد کے لباس میں گھسنے کی کوشش کرنا دو انتہائی رویے ہیں جس کی ایک صورت منزه تو دوسری شکل انجیلا ہے،صلے میں منزه کو معاشرے کا سلوک صالحہ بیگم کی سخت گیری اور شکور میاں کی بے حسی کی شکل میں تو انجیلا کو ظہور میاں کی گهگیاہٹ، منمناہٹ اور صالحہ بیگم کی"میں واری میں قربان" کے روپ میں ملنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں.
اے.آر. نقش
Comments
Post a Comment