رمضان اور انسانی شخصیت




رمضان میں انسانی شخصیت میں جو تبدیلی آتی ہے وہ بقیہ گیارہ مہینوں کے کئے گئے مشق میں
سرگرمی کا "اضافہ" ہوتا ہے،کسی کے لئے حلیاتی نوک پلک کو شرعی بنانے کی ظاہری مشق تو کسی کے لئے اپنے باطن کی کثافت کو نکال باہر کرنے کی مشقت.
جس نے جس انداز کو سال کے بقیہ عرصے میں تسلسل دے رکھا ہو،اس کا یکسر اختتام اور نئے انداز کو اختیار کرنا ناممکن نہیں تو آسان بھی نہیں لہاذا فطری طور پر اسی مشق کے مظاہرے نظر آتے ہیں.
انسان کی ظاہری نوک پلک کی شرعی مطابقت کے لئے بطور گواہ معاشرے کے افراد ہوتے ہیں جو ان ظاہری مشقوں میں انسان کی نفسیاتی تشفی کا سامان وافر مقدار میں فراہم کرتے ہیں.

ملاحظہ ہو!
"بھئی ماشاءاللہ!کیا کہنے حاجی صاحب کے!اس عمر میں بھی 27 رمضان حرم شریف میں گذارنے جا رہے ہیں"
"واقعی یار! ہماری ایسی قسمت کہاں؟"
حاجی صاحب دل ہی دل میں اپنی قسمت پر نازاں ہوتے ہیں.
"اور ہاں اپنے شیخ صاحب ہیں نا!انهوں نے ہر شب ذکر کی محفل رکھی ہے اور شبینہ کا اہتمام بھی ہے،اللہ اور زیادہ دے شیخ صاحب کو"
شیخ صاحب کو بھی ان کی نفسیاتی تشفی کا سامان مل جاتا ہے.
باطن ہر انسان کا اپنا اندرونی وجود ہے جہاں ہمہ وقت ایک تیز طرار،ہر ہر قول و فعل پر روک ٹوک اور لعن طعن کرنے والا اخلاقی وجود موجود ہوتا ہے جسے عرف عام میں"ضمیر"سے موسوم کیا جاتا ہے.
وہ لاکھ حاجی صاحب کو روکے کہ اس بار دکان کے مزدوروں کی تنخواہ میں اضافہ ضروری ہے مگر حاجی صاحب کو اس ایک غائب گواہ کے مقابلے میں کئی ظاہر اور حاضر گواہ دستیاب ہیں جو مسلسل حاجی صاحب کی نفسیاتی تشفی کررہے ہیں تو اب بھلا ایک اور ایک سے زیادہ کا کیا مقابلہ،نقار خانے میں طوطی کی کون سنتا ہے؟
اور شیخ صاحب"ضمیر" کی مریل سی سرزنش پر کان دهر کر اہل محلہ کے آرام میں مخل ہونے سے بهلا کیوں باز آئیں؟ان کے کان تو لاوڈ سپیکرز سے نکلنے والی گونجدار آواز کے روح پرور سرور کے عادی ہوتے ہیں، نعت خوانوں اور ان کے سراہنے والوں کی لمحہ لمحہ وجدانی کیفیت اور لاوڈ سپیکر کے ذریعے روح پرور محفل کی آواز کا دور دور تلک پہنچنا اور اس کے نتیجے میں دیگر اہل ایمان کی مرده ایمانی کیفیت میں نئی روح پهونکے جانے کے تصور کا مظاہرہ شیخ صاحب کی نفسیاتی تشفی کے مسلسل اضافے میں سرگرم ہوتا ہے.
ادھر بھی ایک اور ایک سے زائد گواہ کا مقابلہ چہ معنی دارد!
نفسیاتی طور پر جب انسان تسلی حاصل کر لیتا ہے کہ جو عمل دین سمجھ کر معاشرے میں رائج ہو وہ بعینہ اس کے مطابق اپنی زندگی گذار رہا ہے اور مجموعی طور پر اس کی پذیرائی بھی ہو رہی ہے تو خواه رمضان ہو خواہ غیر رمضان انسان اسی عمل کی انجام دہی میں جتا رہتا ہے بس رمضان المبارک میں اس کا مظاہرہ دیگر مہینوں کی نسبت دیکھنے کو زیادہ ملتا ہے.
اے.آر. نقش

Comments

Popular posts from this blog

چراغ بجھ گیا تھا

Urdu poem chalo badnaam ho jaain by a.r.naqsh