ہم ہمارے رشتہ دار اور اجنبی





جو انسان ہمیں بچپن سے جانتے،ہماری عادات اور نفسیات سے واقف ہوں ان کے منہ سے اپنی شخصی کمزوری کا سن کر ہم ان کی جان لینے کے درپے ہو جاتے ہیں مگر راه چلتا ایک یکسر اجنبی ہمیں روک کر شائستہ طریقے سے ہمیں ہماری کسی شخصی خامی کی بابت بتاتا ہے تو باوجود


ناگواری کے ہم اس پر کان دھرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں.
ایسا کیوں ہوتا ہے؟
دراصل تعصب انسانی فہم و فراست کو معطل کر دیتا ہے،نتیجتاً ہم اپنے قریبی انسانوں کی ہماری شخصیت میں دریافت کردہ خامی اور اس خامی کے دوسروں پر منکشف ہو جانے کی خجالت کی بدولت مزاحمت کی نفسیات میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ردعمل میں اپنی خامی کی درستگی کے لئے


سرگرم ہونے کی بجائے اوروں کی ذات میں کیڑے نکالنے میں مصروف ہو جاتے ہیں.
اجنبی انسان سے سنی گئی اسی طرز کی بات محض اس لئے ہضم ہو جاتی ہے کہ ہماری دانست میں اس سے ہمارے قریبی انسان لا علم ہوتے ہیں،نتیجتاً ہم بلا چوں و چراں اس اجنبی انسان کی ظاہری شائستگی،رکهه رکهاو اور خلوص کے جھانسے میں آکر اس کی ہر اس بات پر بھی آمنا و صدقنا کہتے ہیں جو کسی قریبی انسان نے ہمیں ہماری شخصی کمزوری کے طور پر کبهی نہ بتائی ہو.
ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنے قریبی انسانوں کے ہمارے بارے میں خیالات کا ہمہ وقت جائزه لیتے رہیں،دوسروں کو ان کی شخصی کمیاں محبت،نرمی،شائستگی اور خیر خواہی کے انداز میں بتائیں اور اس کو بہتر بنانے میں حتی الوسع مدد فراہم کریں.اجنبی انسانوں سے اپنی ذات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے یہ یقین کر لیں کہ وہ اس حوالے سے کیا حیثیت رکھتے ہیں،ان کا علم محض ان کے بقول"پہنچا"ہوا علم ہے یا معاشرے میں ان کے متعلق مختلف عمومی رائے پائی جاتی ہے؟
انسان اپنا سب سے بہترین دوست اور بدترین دشمن ہے.دوسروں کی رائے زنی سے بچنے کے لئے
ہمہ وقت خود احتسابی کے عمل سے گذرتے رہنا چاہیے.

اے. آر. نقش

Comments

Popular posts from this blog

چراغ بجھ گیا تھا

Urdu poem chalo badnaam ho jaain by a.r.naqsh