مسلمان، غیر مسلمان اور دنیا کا اقتدار

دنیا کے نقشے پر پچھلی صدی کے دوران کئی زورآور ریاستیں تحلیل ہوئیں،کئی نئی چھوٹی بڑی
ریاستوں کا وجود دیکھنے میں آیا.

پرانے وقتوں میں سلطنتیں قائم تھیں اور قبضہ اقتدار کے لئے اکثر و بیشتر خونریز جنگیں ہوا کرتیں،محلاتی سازشیں عروج پر پہنچ کر بادشاہ وقت کو تخت سے اتار کر تختہ دار تک پہنچا کر دم لیتیں.
صنعتی انقلاب اور دیہی زندگی سے شہروں کی آبادکاری کے تسلسل نے سیاسی بندوبستوں کی شکل میں جوہری تبدیلی پیدا کی، اب لوگ نئے تقاضوں کے مطابق جینے لگے اور سلطنتوں کا وجود ناپید ہوتا چلا گیا، قومی ریاستوں کے تصور کو پذیرائی ملی اور ریاست محض فرد واحد کی جاگیر کی بجائے تمام ریاستی شہریوں کے مجموعی معاہدے کے طور پر سمجھا اور پرکھا جانے لگا.
انسان فطری طور پر آزادی پسند واقع ہوا ہے،کسی کے زیرِ نگیں رہنا اس کی مجبوری ہو سکتی ہے خواہش نہیں،مگر اس کے ساتھ ساتھ انسان توسیع پسندانہ عزائم کا بھی حامل ہے، جہاں موقع ملا اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی سعی کرتا ہے.
اسی انسانی رویے کی بدولت انسان خود کو آزاد مگر دیگر انسانوں کو اپنا غلام، ماتحت اور زیرِ تسلط دیکھنا چاہتا ہے.

دنیا میں جاری خونریز جنگیں اسی انسانی رویے کی مظہر ہیں.تاہم انسان تاریخی عمل سے سیکھنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے،دنیا کے کئی اقوام نے حصولِ اقتدار کی خونریزی کو پرامن طریقہ انتقال میں بدل دیا اور آج ان ریاستوں کے شہری ایک منظم طرزِ انتخاب کے تحت ایک معین مدت اقتدار کے لئے ریاست میں سرگرم سیاسی جماعتوں کو اپنا نمائندہ چنتی ہیں اور ان کی کارکردگی کو جانچنے پرکھنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتی ہیں.
مسلمان دنیا کی آبادی کا ایک اہم حصہ ہے، مشرق وسطیٰ،سنٹرل ایشیائی ممالک اور جنوبی ایشیا کے چند ممالک میں ان کی ریاستی آبادکاری ہوئی ہے.
کیا وجہ ہے کہ دنیا کی غیر مسلم اقوام  یک قومی یا کثیر القومی جمہوری ریاستوں میں شہریت اختیار کرنے میں چنداں تامل نہیں کرتیں مگر مسلمان قوم دنیا کے ہر خطے میں کہیں آپسی تنازعات کا شکار ہے تو کہیں دیگر غیر مسلم اقوام کو اپنا دست نگر بنانے کے درپے ہے؟

دراصل تاریخی طور پر پچھلی صدی کے خلافت عثمانیہ کے سقوط نے دنیا بھر کے مسلم رہنماؤں اور عوام کو ایک زبردست صدماتی صورتحال سے دوچار کر دیا،مسلم رہنما عام مسلمانوں کو بدلتی سیاسی بندوبستوں میں مدغم ہونے کی بجائے ہزار سالہ عظمتِ رفتہ کی داستان سنانے اور انہیں بجائے پرامن سیاسی تحریک کے بزور قوت اپنا اقتدار حاصل کرنے کے لئے حوصلہ افزائی کرتے رہے،ان کے فہم کے مطابق تاریخی عمل سے اخذ شدہ جمہوری طریقہ اقتدار غیر اسلامی عمل ہے،حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا پر قومی ریاستوں کے ظہور سے قبل سلطنتوں، امارتوں اور جاگیردارانہ نظام کا دوردوره رہا ہے جس میں کیا مسلم اور غیر مسلم حکمرانوں کی تخصیص!
حالانکہ غیر مسلم اقوام نے بھی استبدادی بادشاہتوں کے چنگل سے جمہوری طرزِ حکمرانی کا وجود نکالا ہے اور اسے فرد واحد سے اداره جاتی نظام میں تبدیل کیا ہے.
جمہوریت کے لئے اس بے جا بغض اور دنیا پر محض مسلم حکمرانی کے بے تعبیر خواب نے مسلمانوں کو غیر حقیقت پسندی کے عارضہ لا علاج میں مبتلا کر دیا.
دوسرے کو زیرِ تسلط رکھنے کی فطری آرزو اور اقتدار میں بلاشرکت غیرے شمولیت کی نسل در نسل روش نے اگر ایک طرف مسلم آبادی کے علاقوں میں خاندانی مملکتیں،اماراتیں،آمریتیں اور برائے نام جمہوریتیں قائم کر رکھیں ہیں تو دوسری جانب دنیا پر محض مسلم حکمرانی کے منہ زور اور غیر حقیقی فکری رہنمائی نے مسلم عوام میں غیرمسلموں کے ساتھ جدید ریاستی بندوبست میں مل جل کر نہ رہنے بلکہ بزور قوت انہیں اپنا زیرِ دست اور محکوم رکھنے کی لاحاصل تمنا میں قید کر دیا ہے.
دنیا کے مختلف خطوں میں آزادی کی تحریکیں برپا ہیں مگر کیا وجہ ہے کہ جن خطوں میں مسلمان وہاں کی قائم شدہ حکومتوں سے برسرِ پیکار ہیں تو مسلم حربی گروہ کلی آزادی یا قائم شدہ سیاسی بندوبست میں پرامن حصہ داری کی بجائے وہاں کا اقتدار قبضہ کرنے اور دیگر اقوام کو ماتحت اور محکوم کرنے اور رکھنے کے درپے نظر آتی ہیں؟
مسلمانوں کو نئے دور کے سیاسی بندوبست کو سمجھنا اور اس کے مطابق اپنی آزادی اور سیاسی حقوق کے حصول کی جدوجہد کو ڈهالنا ہوگا،دنیا تیزی سے بدل رہی ہے اورباہمی انحصار کے ناگزیر تقاضوں کی وجہ سے اقوامِ عالم قومی ریاستوں سے کثیرالقومی جمہوری ریاستوں کی جانب گامزن ہے.

سائنس اور ٹیکنالوجی اور اقتصادیات کی باہمی مسابقت نے دنیا کے زندہ ضمیر کو اس امر پر قائل کر دیا ہے کہ یہ کره ارض باہمی فسادات کی آماجگاہ نہیں بلکہ تمام انسانوں کا بلا تفریق مسکن ہے، اب سے آگے اقوامِ عالم امن، اقتصادیات اور سائنس و ٹیکنالوجی کے میدانوں میں مسابقت آرائی کریں گی نہ کہ توپ و تفنگ سے آراستہ و پیراستہ ہو کر جنگ و جدل کے میدان سجانے کے لئے صف آراء ہوں گی.
مسلم ضمیر کو وقت کی آواز پر کان دھرنے کا وقت ہے، آئیے مل کر سنتے اور عمل کرنے کی ٹهانتے ہیں.دنیا کے نقشے پر پچھلی صدی کے دوران کئی زورآور ریاستیں تحلیل ہوئیں،کئی نئی چھوٹی بڑی ریاستوں کا وجود دیکھنے میں آیا.
پرانے وقتوں میں سلطنتیں قائم تھیں اور قبضہ اقتدار کے لئے اکثر و بیشتر خونریز جنگیں ہوا کرتیں،محلاتی سازشیں عروج پر پہنچ کر بادشاہ وقت کو تخت سے اتار کر تختہ دار تک پہنچا کر دم لیتیں.
صنعتی انقلاب اور دیہی زندگی سے شہروں کی آبادکاری کے تسلسل نے سیاسی بندوبستوں کی شکل میں جوہری تبدیلی پیدا کی، اب لوگ نئے تقاضوں کے مطابق جینے لگے اور سلطنتوں کا وجود ناپید ہوتا چلا گیا، قومی ریاستوں کے تصور کو پذیرائی ملی اور ریاست محض فرد واحد کی جاگیر کی بجائے تمام ریاستی شہریوں کے مجموعی معاہدے کے طور پر سمجھا اور پرکھا جانے لگا.
انسان فطری طور پر آزادی پسند واقع ہوا ہے،کسی کے زیرِ نگیں رہنا اس کی مجبوری ہو سکتی ہے خواہش نہیں،مگر اس کے ساتھ ساتھ انسان توسیع پسندانہ عزائم کا بھی حامل ہے، جہاں موقع ملا اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی سعی کرتا ہے.
اسی انسانی رویے کی بدولت انسان خود کو آزاد مگر دیگر انسانوں کو اپنا غلام، ماتحت اور زیرِ تسلط دیکھنا چاہتا ہے.
دنیا میں جاری خونریز جنگیں اسی انسانی رویے کی مظہر ہیں.تاہم انسان تاریخی عمل سے سیکھنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے،دنیا کے کئی اقوام نے حصولِ اقتدار کی خونریزی کو پرامن طریقہ انتقال میں بدل دیا اور آج ان ریاستوں کے شہری ایک منظم طرزِ انتخاب کے تحت ایک معین مدت اقتدار کے لئے ریاست میں سرگرم سیاسی جماعتوں کو اپنا نمائندہ چنتی ہیں اور ان کی کارکردگی کو جانچنے پرکھنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتی ہیں.
مسلمان دنیا کی آبادی کا ایک اہم حصہ ہے، مشرق وسطیٰ،سنٹرل ایشیائی ممالک اور جنوبی ایشیا کے چند ممالک میں ان کی ریاستی آبادکاری ہوئی ہے.
کیا وجہ ہے کہ دنیا کی غیر مسلم اقوام  یک قومی یا کثیر القومی جمہوری ریاستوں میں شہریت اختیار کرنے میں چنداں تامل نہیں کرتیں مگر مسلمان قوم دنیا کے ہر خطے میں کہیں آپسی تنازعات کا شکار ہے تو کہیں دیگر غیر مسلم اقوام کو اپنا دست نگر بنانے کے درپے ہے؟
دراصل تاریخی طور پر پچھلی صدی کے خلافت عثمانیہ کے سقوط نے دنیا بھر کے مسلم رہنماؤں اور عوام کو ایک زبردست صدماتی صورتحال سے دوچار کر دیا،مسلم رہنما عام مسلمانوں کو بدلتی سیاسی بندوبستوں میں مدغم ہونے کی بجائے ہزار سالہ عظمتِ رفتہ کی داستان سنانے اور انہیں بجائے پرامن سیاسی تحریک کے بزور قوت اپنا اقتدار حاصل کرنے کے لئے حوصلہ افزائی کرتے رہے،ان کے فہم کے مطابق تاریخی عمل سے اخذ شدہ جمہوری طریقہ اقتدار غیر اسلامی عمل ہے،حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا پر قومی ریاستوں کے ظہور سے قبل سلطنتوں، امارتوں اور جاگیردارانہ نظام کا دوردوره رہا ہے جس میں کیا مسلم اور غیر مسلم حکمرانوں کی تخصیص!
حالانکہ غیر مسلم اقوام نے بھی استبدادی بادشاہتوں کے چنگل سے جمہوری طرزِ حکمرانی کا وجود نکالا ہے اور اسے فرد واحد سے اداره جاتی نظام میں تبدیل کیا ہے.
جمہوریت کے لئے اس بے جا بغض اور دنیا پر محض مسلم حکمرانی کے بے تعبیر خواب نے مسلمانوں کو غیر حقیقت پسندی کے عارضہ لا علاج میں مبتلا کر دیا.
دوسرے کو زیرِ تسلط رکھنے کی فطری آرزو اور اقتدار میں بلاشرکت غیرے شمولیت کی نسل در نسل روش نے اگر ایک طرف مسلم آبادی کے علاقوں میں خاندانی مملکتیں،اماراتیں،آمریتیں اور برائے نام جمہوریتیں قائم کر رکھیں ہیں تو دوسری جانب دنیا پر محض مسلم حکمرانی کے منہ زور اور غیر حقیقی فکری رہنمائی نے مسلم عوام میں غیرمسلموں کے ساتھ جدید ریاستی بندوبست میں مل جل کر نہ رہنے بلکہ بزور قوت انہیں اپنا زیرِ دست اور محکوم رکھنے کی لاحاصل تمنا میں قید کر دیا ہے.
دنیا کے مختلف خطوں میں آزادی کی تحریکیں برپا ہیں مگر کیا وجہ ہے کہ جن خطوں میں مسلمان وہاں کی قائم شدہ حکومتوں سے برسرِ پیکار ہیں تو مسلم حربی گروہ کلی آزادی یا قائم شدہ سیاسی بندوبست میں پرامن حصہ داری کی بجائے وہاں کا اقتدار قبضہ کرنے اور دیگر اقوام کو ماتحت اور محکوم کرنے اور رکھنے کے درپے نظر آتی ہیں؟
مسلمانوں کو نئے دور کے سیاسی بندوبست کو سمجھنا اور اس کے مطابق اپنی آزادی اور سیاسی حقوق کے حصول کی جدوجہد کو ڈهالنا ہوگا،دنیا تیزی سے بدل رہی ہے اورباہمی انحصار کے ناگزیر تقاضوں کی وجہ سے اقوامِ عالم قومی ریاستوں سے کثیرالقومی جمہوری ریاستوں کی جانب گامزن ہے.
سائنس اور ٹیکنالوجی اور اقتصادیات کی باہمی مسابقت نے دنیا کے زندہ ضمیر کو اس امر پر قائل کر دیا ہے کہ یہ کره ارض باہمی فسادات کی آماجگاہ نہیں بلکہ تمام انسانوں کا بلا تفریق مسکن ہے، اب سے آگے اقوامِ عالم امن، اقتصادیات اور سائنس و ٹیکنالوجی کے میدانوں میں مسابقت آرائی کریں گی نہ کہ توپ و تفنگ سے آراستہ و پیراستہ ہو کر جنگ و جدل کے میدان سجانے کے لئے صف آراء ہوں گی.
مسلم ضمیر کو وقت کی آواز پر کان دھرنے کا وقت ہے، آئیے مل کر سنتے اور عمل کرنے کی
ٹهانتے ہیں.
اے.آر. نقش

Comments

Popular posts from this blog

چراغ بجھ گیا تھا

Urdu poem chalo badnaam ho jaain by a.r.naqsh