مولوی صاحب اور شفیق ٹھیکیدار

مولوی صاحب:-ہاں تو میں بتا رہا تھا کہ دین میں نقل ہے عقل نہیں،مطلب جو ملا اسے بلا چوں و چراں تسلیم کر لو.
سارے مقتدی سر ہلاتے ہیں گویا مولوی صاحب کا فرمایا ہوا لفظ لفظ حق سچ ہوتا ہے، مطلق ہوتا ہے اور اس کی سند،صحت کے بارے میں مقتدیوں کو سوال کرنے کی چنداں ضرورت نہیں،مولوی صاحب بهلا انہیں غلط بات سکھائیں گے!
درس کے بعد مولوی صاحب کا منشی مدرسے کے زیرِ تعمیر حصے کے اخراجات کا حساب کتاب کرنے آدهمکتا ہے.
خادم:-یہ وہ ٹھیکیدار کا بل ہے مولوی صاب!بول رہا تھا آج ادائیگی کر لیں تو اچھا ہے، آگے مزدوروں کو بھی اجرت دینی ہے.
مولوی صاحب :-(بل کے مندرجات کو بغور دیکھتے ہوئے)....یہ اینٹ کی قیمت مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی، باقی تو چلو ٹھیک ہی لگتا ہے
خادم:-کیوں مولوی صاب!
مولوی صاحب:-بھئی!ان ٹھیکیداروں کا کیا بھروسہ،کب قیمت آگے پیچھے کر لیں
خادم:- پر جی! اپنا شفیق ٹھیکیدار کهرا بنده ہے مولوی صاب
مولوی صاحب:-اوئے بےوقوف! تحقیق اچھی چیز ہے، بنده بشر ہے، قیمت کی حقیقت معلوم کرنے میں کیا حرج ہے، تو ذرا وہ کرامت اور رشید خشت ساز کے نمبر ملا
اور پھر مولوی صاحب شفیق ٹھیکیدار کے بنائے ہوئے بل میں اینٹ کی فی سیکڑه قیمت کرامت اور رشید سے کافی بحث و مباحثہ اور اپنے سوالات کے تسلی بخش جوابات لے کر خادم کو فون تھماتے ہیں
مولوی صاحب:- لے بھئی!تیرےشفیق ٹھیکیدار کا بل اب ادائیگی کے قابل ہے.
خادم بل ادا کرنے جاتا ہے اور مولوی صاحب اگلے درس کی تیاری میں لگ جاتے ہیں.

Comments

Popular posts from this blog

چراغ بجھ گیا تھا

Urdu poem chalo badnaam ho jaain by a.r.naqsh